O my Lord, grant me guidance that I may be grateful for Your favour which You have bestowed upon me and my parents and that I may do such good works as would please You and admit me out of Your Mercy among Your those bondmen who deserve Your proximity.

The Express Tribune » Multimedia » Slideshows

Business Recorder - Pakistan

Pakistan News » Top Stories

IBN Top Headlines

Geo Sport - Geo TV Network

Monday, July 23, 2012

پٹھان اور طالبان درحقیقت بنی اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل، اسرائیل کے شہر حیفہ میں ڈی این اے تحقیق آخری مراحل می


حضرت اسرائیل کو اللہ نے حکم دیا تھا کہ وہ اسرائیل نام کی ریاست قائم کریں، ریاست اسرائیل کی سرحدات کی واضح نشاندہی بھی اللہ پاک نے فرما دی تھی۔ حکم الٰہی کی پابندی کرتے ہوئے حضرت اسرائیل نے اسرائیل نام کی ریاست قائم کی۔ بنی اسرائیل نے شدید محنت کی۔ گڈ گورننس سے کام لیا گیا۔ ا للہ نے اس محنت کا پھل عطا کرنا شروع کر دیا۔ اسرائیل خوشحال ترین ریاست بنتی چلی گئی۔ اسرائیل میں بارہ قبائل آباد تھے جنہیں بنی اسرائیل کے اجتماعی نام سے پکارا جاتا تھا۔ صرف دو قبائل حضرت ابراہیم کے پیغام حق کو تسلیم کرتے تھے۔ توریت پر عمل کرتے تھے اور یہودہ کہلاتے تھے (آج کے یہودی)۔ باقی دس قبائل توریت کو تسلیم نہیں کرتے تھے لیکن بنی اسرائیل کا حصہ تھے۔ حضرت سلیمان کے دور میں ریاست اسرائیل نے نمایاں ترقی کی۔ خوشحالی اور طاقت کے زعم میں مقررہ حدود سے تجاوز کیا۔ اردگرد کے علاقوں پر بھی فوجی تسلط جما لیا۔ ملکہ صباء حضرت سلیمان کی اہمیت اور اہلیت سے متاثر ہو کر ان کی گرویدہ بن بیٹھی۔ حضرت سلیمان نہ صرف ایک بہادر ملٹری کمانڈر تھے بلکہ اللہ نے انہیں چرند و پرند کی زبان سجھنے کی صلاحیت بھی عطا کر رکھی تھی۔ حضرت سلیمان نے یروشلم میں ایک وسیع و عریض عبادت گاہ تعمیر کی جو ہیکل سلیمانی کہلائی۔ حضرت سلیمان کے دور میں اسرائیل ایک عظیم سپر پاور بن چکی تھی۔ بعدازاں اسرائیل راہ حق سے ہٹتے چلے گئے۔ اببرین نامی قوم نے اسرائیل پر حملہ کیا۔ اس حملے میں بڑی تعداد میں اسرائیلی (بنی اسرائیل) قتل ہوئے، گرفتار ہوئے، ملک بدر بھی کر دیئے گئے، ہیکل سلیمانی کو مسمار کر دیا گیا۔ ریاست اسرائیل سے فرار ہونے والوں میں وہ دس قبائل بھی شامل تھے جنہوں نے توریت کو قبول نہیں کیا تھا۔ یہودی آج بھی ان دس غائب شدہ بنی اسرائیل قبائل کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غائب شدہ دس قبائل چند یا دس قبائل فارس (ایران) کے قریب علاقے نحور میں آن بسے۔ ان میں سے ایک قبیلے کا نام بنی پخت تھا جس سے پختون لفظ نکلا (حوالہ تاریخ فرشتہ) تاریخ میں یہ حوالہ بھی موجود ہے کہ پخت قبائل کے ایک سربراہ ساؤل کو حضرت خالد بن ولید نے مکہ آنے کی دعوت دی۔ یہ قبائلی سردار بحیثیت مہمان مکہ پہنچا، نبی پاک حضرت محمد سے اس کی ملاقات ہوئی۔ یہ بے حد متاثر ہوا اوراسلام قبول کر لیا۔ رسول کریم نے اس سردار کو بتاں کے لقب سے نوازا اور اس کا اسلامی نام عبدالرشید رکھا۔ بتاں کے لغوی معنی چٹان جیسے بادبان کے بنتے ہیں۔ حضرت خالد بن ولید نے اپنی ایک صاحبزادی عبدالرشید کے نکاح میں دے دی۔ کچھ عرصہ بعد عبدالرشید اپنے اہل خانہ کے ساتھ مکہ سے نحور کی جانب روانہ ہوا۔ نحور پہنچ کر عبدالرشید نے سارا واقعہ اپنے قبائل کو بتایا۔ چنانچہ تمام قبائل مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ لفظ بتان وقت کے ساتھ ساتھ پٹھان بن گیا، پٹھان آج بھی آہنی چٹان کی طرح ہر طاقت کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہ عجوبہ خیز بات ہے کہ پٹھان مختلف قبائل کا مجموعہ بن چکے ہیں، ان میں یوسف زئی (یوسف کے بیٹے)، داؤدخیل (داؤد کے بیٹے)، سلیمان خیل (سلیمان خیل) وغیرہ موجود ہیں۔ پٹھانوں کی بیشتر چیزیں بنی اسرائیل سے ملتی جلتی ہیں۔ ملیح آبادی پٹھان نواز ڈاکٹر نوارس آفریدی جنہوں نے اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل کے موضوع پر ڈبل ڈاکٹریٹ کیا ہے کی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ بھارت اور پاکستان میں بسنے والے پٹھان دراصل وہی گمشدہ قبائل ہیں، یعنی پشتون اور طالبان کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے۔ اس سلسلے میں ڈی این اے ٹیسٹ حیفہ (اسرائیل) کے مقام پر ریسرچ کے آخری مراحل میں ہے۔ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ افغانستان کا باقاعدہ قیام 1938ء میں عمل میں آیا لیکن آج بھی قبائل نظام مادی ہے۔ موجودہ افغانستان کی سرحد 76 کلومیٹر چین کے ساتھ 9360 کلومیٹر ایران کے ساتھ، 1987ء کلومیٹر تاجکستان کے ساتھ اور 2430 کلومیٹر پاکستان کے ساتھ ملتی ہے۔ فاٹا اور صوبہ پختون خوا میں پٹھانوں کی اکثریت آباد ہے، افغانستان میں ٹوٹل 34 صوبے ہں، 10 صوبے پاکستان کے ساتھ، 13 ایران کے ساتھ، 3 صوبے تاجکستان ک ساتھ ملتے ہیں۔ یہ بھی نہ بھولا جائے کہ بنی اسرائیل کی ریاست اسرائیل کے ساتھ ساتھ فلسطین کی ریاست بھی قائم تھی لیکن فلسطین میں مسلمان نہیں رہتے تھے۔ جدید دور کے فلسطین میں ہجرت کر کے بس جانے والے عرب مسلمان رہتے تھے۔ ان مسلمانوں نے یورپی یہودیوں کے ہاتھ مہنگے داموں اپنی زمینیں فروخت کر ڈالں جن پر موجودہ اسرائیل قائم ہوا ہے۔ موجودہ اسرائیل کی چوڑائی فقط 94 میل ہے۔ اس پر 6 عرب ممالک کی افواج نے مل کر چڑھائی کی اور عبرت ناک شکست کھائی۔ اب اسرائیل نہایت طاقتور ریاست بن چکا ہے۔ ایٹمی طاقت ہے جبکہ فلسطین اقوام متحدہ اور عرب ممالک کی خیرات پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کوئی ایک عرب ملک فلسطینیوں کو پناہ دینے کے لئے تیار نہیں ہے جس طرح ڈھاکہ میں پھنسے ہوئے بہاریوں کو پاکستان قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب 60 کروڑ ہے جبکہ یہودیوں کی تعداد 14 ملین ہے۔ یہودی ترقی یافتہ ممالک میں انتہائی بااثر ہیں۔ مسلمان کشکول گدائی اٹھائے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ترقی یافتہ ممالک سے بھیک کے طلب گار ہیں۔ حکم قرآن ہے کہ سنت ابراہیمی پر عمل کرو، تمام الہامی کتابوں کو نہ صرف تسلیم کرو بلکہ آل ابراہیم کے تمام پیغمبروں پر ایمان لاؤ، مذہب کے معاملے میں سخت گیری اختیار نہ کرو، حضرت اسحاق کی اولادوں میں سے یہودی ہیں، حضرت اسماعیل کی اولادوں میں سے مسلمان ہیں۔ اسحاق اور اسماعیل کے والد بزرگوار کا نام حضرت ابراہیم ہے۔ کوئی تو سمجھا کر بتائے کہ آخر جھگڑا کیا ہے۔ حکم قرآن یہ بھی ہے کہ کرۂ ارض پر بسنے والے ہوں یا کائنات کے کسی بھی گوشہ میں سب اللہ ہی کی مخلوق ہیں، کائنات لامحدود ہے، آسمان در آسماں ہیں۔ قرآن الحکیم کی حکمت لامحدود اور تمام مخلوقات کے لئے ہے، اس لئے حکم قرآن یہ بھی ہے اور صد فیصد واضح ہے کہ: ایک ہوں، انسان تسخیر کائنات کے لئے۔

No comments:

Post a Comment